میرے دوست سے ایک مرتبہ میری بحث ہورہی تھی کہ موجودہ حالات میں بچیوں کے رشتوں کا بڑا بحران ہے اور اچھے رشتے بہت کم یاب ہیں۔ اس پر موصوف محترم نے بتایا کہ رشتوں کا بحران تو ہے ہی لیکن انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ جو رشتے ہورہے ہیں وہ محفوظ نہیں رہتے اور اکثر و بیشتر طلاق پر منتج ہورہے ہیں۔میں یہ تو نہیں جانتا کہ متذکرہ شادیاں ناکام کیوں ہوئیں نہ میں ان کی وجوہ معلوم کرسکا ہوں لیکن کئی مثالوں کی روشنی میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ جن شادیوں میں نمائش اور اسراف کا مظاہرہ ہوتا ہے اور بے پردگی اور ناچ گانے کا کلچر اختیار کیا جاتا ہے وہاں لازماً اللہ کی ناراضگی طاری ہوجاتی ہے اور معاملات سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ میرے مشاہدے میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن میں ایک قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
ڈاکٹر عبدالعلیم میرے کلاس فیلو اور دوست ہیں۔ وہ کافی عرصہ سعودی عرب میں رہے چنانچہ انہوں نے وہاں خوب دولت کمائی لیکن بالآخر وطن واپس آگئے اور لاہور میں رہائش اختیار کرلی۔ یہاں انہوں نے ایک معروف بستی میں مکان خرید لیا‘ قریب ہی ذاتی ہسپتال بنالیا اور اس طرح آسودگی کی زندگی گزارنے لگے۔ڈاکٹر صاحب کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ انہوں نے بڑی بیٹی کی شادی اپنی بیگم کے سگے بھتیجے سے کی۔ دولہا میاں نے مطالبہ کیا کہ اس کی بارات ہلٹن ہوٹل میں اترے گی۔ چنانچہ وزیرآباد سے تین سو باراتیوں کی فوج ظفر موج ہلٹن میں وارد ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی مع خاندان شمولیت کی دعوت دی تھی۔
میں نے مختلف ہوٹلوں میں شادی کی کئی تقریبات میں شرکت کی لیکن یہ تقریب منفرد اور یکتا تھی۔ ڈاکٹر عبدالعلیم نے خوب دل کھول کر پیسہ لٹایا تھا۔ کھانوں کی اتنی ورائٹی اور کثرت میں نے کبھی کہیں نہیں دیکھی۔ آٹھ قسم کی تو میٹھی چیزیں تھیں ہر قسم کے گوشت تھے اور پوری محفل رنگ و نور میں نہائی ہوئی تھی۔ لیکن میرے لیے جو منظر بے حد تعجب اور تکلیف کا سبب بناوہ دلہن اور ڈاکٹر صاحب کے خاندان کے جلوس کی آمد کا انداز ہے۔ انتہائی تیز روشنیوں اور کیمروں کے جلوس میں دلہن ہال میں داخل ہوئی مکمل میک اپ اور مکمل بے پردگی‘ اس کے پیچھے ڈاکٹر صاحب کی بیگم گلے میں دوپٹہ ڈالے اور بال کھلے چل رہی تھی اور اس کے پہلو میں ان کی چھوٹی جوان بیٹی دلہن کا مثنیٰ بنی خراماں خراماں چل رہی تھی اس کے بھی بال کھلے تھے اور لال بھبھوکے چہرے کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ ان کے عقب میں ڈاکٹر صاحب نوعمر بیٹے کے ساتھ شرمندہ شرمندہ سرجھکائے چہل قدمی کے انداز میں محو خرام تھے۔کھانے سے فارغ ہوکر میں نے ڈاکٹر صاحب سے الوداعی ملاقات کی‘ ان کا شکریہ ادا کیا اور شکایت کی:”ڈاکٹر صاحب آپ اتنا عرصہ سعودی عرب میں رہے ہیں دینی مزاج رکھتے ہیں‘ پھر آپ نے یہ حرکت کیوں کی؟ بے پردگی اور نمائش کا یہ مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔“
ڈاکٹر صاحب بہت شرمندہ ہوئے کہنے لگے ”ہم یہاں نئے آئے ہیں محلے والوں نے جیسے مشورہ دیا ہم نے عمل کرلیا لیکن اب تو یہ رسمیں اس معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں ان سے بچنا ممکن نہیں رہا۔“لیکن ایک پڑھے لکھے دیندار شخص کو ان سے احتراز کرنا چاہیے تھا کہ یہ باتیں اللہ کو پسند نہیں ہیں۔“ میں اپنا فرض ادا کرکے واپس آگیا اور بہت دیر تک ڈاکٹر صاحب سے ملنے کو جی نہ چاہا۔تقریباً ایک سال گزر گیا۔ میں ایک مرتبہ اتفاق سے اس بستی میں گیا جہاں ڈاکٹر صاحب کا گھر اور ہسپتال تھا تو موصوف سے بھی ملاقات ہوگئی میں خیرخیریت اور خصوصاً اس بیٹی کے بارے میں پوچھا جس کی گزشتہ برس شادی ہوئی تھی تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے اس بے چاری کا کیا پوچھتے ہو‘ اسے تو چھ ماہ بعد ہی طلاق ہوگئی تھی۔مجھے جیسے کرنٹ لگامگر یہ حادثہ کیسے ہوا؟ دولہا تو آپ کا قریبی عزیز تھا۔ یہی تو المیہ ہے فاروق صاحب! اس ظالم نے کھڑے کھڑے کہہ دیا مجھے یہ لڑکی پسند نہیںحالانکہ وہ اس کیلئے ہرگز اجنبی نہیں تھی اور شادی سے پہلے اس نے اسے بارہا دیکھا تھا‘ لیکن تقدیر اٹل ہے اس پر کسی کا بس نہیں۔
میں خاموش رہا لیکن کاش میں ڈاکٹر صاحب کو بتاسکتا کہ نہیں حضرت! اللہ کی تقدیر اندھی بہری نہیں ہے یہ انسانوں کے اچھے برے اعمال کے تناظر میں حرکت کرتی ہے۔ ایک شخص سب کچھ جانتے بوجھتے‘ معلومات رکھتے ہوئے اگر اللہ کی بغاوت پر تل جائے اور تہیہ کرلے کہ وہ خالق اکبر کے قوانین کا مذاق اڑائے گا تو پھر اللہ کی رحمت ایسے شخص سے روٹھ جایا کرتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں